” بس اتنا سا کہنا تھا “

ہمارے ارد گرد لازمی ایسے بہت سارے لوگ ہوتے ہیں جو ہر وقت دوسروں کی برائیاں اور ان کے نقص نکالنے میں مصروف ہوتے ہیں۔

ایسے لوگوں کی ذہنی حالت ایسی ہوتی ہے کہ یہ لوگ اپنے اپ کو مکمل طور پر پرفیکٹ سمجھتے ہیں لیکن ان کے اندر اپنی ذات کو لے کر ہی بہت ساری insecurities ہوتی ہیں۔ جن معاملات میں یہ دوسروں کے اندر برائیاں نکالتے ہیں انہی معاملات میں یہ لوگ خود ماضی میں سفر کر چکے ہوتے ہیں اسی لیے یہ لوگ دوسروں میں خامیاں نکالتے ہیں۔
اور سب سے بڑھ کر حیرانی کی بات یہ ہے کہ اگر انہیں کوئی سمجھائے کہ اپ یہ غلط کر رہے ہیں یا اپ کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تو یہ ماننے کو تیار نہیں ہوتے کہ انہوں نے کچھ غلط کیا ہے۔ اور جب ان کی وجہ سے کہیں پر فساد پڑتا ہے، کسی کا دل ٹوٹتا ہے، کوئی روتا ہے یا کسی کو اپنی لائف میں ان کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو یہ اپنے بچاؤ میں بہت حسین جملہ پیش کرتے ہیں۔

ایسے لوگ ہمیشہ کہتے ہیں کہ!
“میں نے تو بس اتنا کہا تھا، بس اتنا، بس اتنا سا تو کہا تھا۔”
اس پر اتنا زیادہ ری ایکٹ کرنے کی یا اتنا زیادہ پریشان ہونے کی کیا ضرورت تھی ہم نے تو تمہارا بھلا چاہا تھا وغیرہ وغیرہ۔

اگر اس کی وجہ کی بات کریں تو بہت سارے لوگ یہ کہیں گے کہ جن لوگوں نے اپنے ماضی میں مشکلات کو دیکھا ہے بہت سارے مسائل کا سامنا کیا ہے ان کا دل تھوڑا سخت ہو جاتا ہے حالات انسان کو سخت بنا دیتے ہیں یا پھر کچھ لوگ یہ جسٹیفیکیشن دیتے ہیں کہ وہ تو بڑا ہے اس نے ایسا کر لیا تو کیا ہوا۔ بڑے ہونے کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہوتا ہے کہ اپ سامنے والے کو کسی بھی وقت اپنے انداز میں ذلیل و خوار کرتے رہیں۔

بہت سی عورتیں ساس، بہو، بھابھی، نند، دیورانی یا جٹھانی بننے کے بعد اسی عارت کی وجہ سے اپنے رشتے خراب کر لیتی ہیں یا دوسروں کے رشتوں میں خرابی کی وجہ بنتی ہیں، اور انہی عورتوں کی وجہ سے عورتوں کو “زبان درازی” کا لقب دیا جاتا ہے۔

میرے نزدیک اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ وہ لوگ جو اپنی زندگی کے مقصد کو نہیں پہچانتے جن کے پاس کرنے کے لیے کچھ بہت زیادہ کام نہیں ہوتے یا وہ لوگ جو اپنی زندگی کے 30 40 سال گزار چکے ہیں اور اج تک انہوں نے خود کو نہیں سمجھا، خود کے اندر تبدیلی لانے کی کوشش نہیں کی نا ہی انہوں نے اپنا تعلق اپنے ساتھ مضبوط کیا اور نا ہی رب کی ذات کے ساتھ خود کو جوڑا، ایسے لوگ زندگی میں سکون اور مزے کے لیے لاشعوری طور پر یہ کام کرتے ہیں۔

دوسروں کی برائی کرنے انہیں سے وہی مزہ ملتا ہے ان کے دماغ سے وہی نیورو کیمیکل اور ہارمونز نکلتے ہیں جو اپ کو اپنا من پسند کھانا کھا کر یا اپنی من پسند کافی پی کر ملتا ہے، اور دوسروں کے نقص نکالنا ان کی favorite hobby ہوتا ہے یہ اپنی عادت کے ہاتھوں مجبور ہوتے ہیں۔

اسلامک پوائنٹ اف ویو سے بھی دیکھا جائے تو اللہ تعالی نے غیبت کرنے کو سختی سے منع فرمایا ہے۔
غیبت کیا ہوتی ہے؟
“غیبت کسی کے سچے عیب کو اس کی پیٹھ پیچھے بیان کرنا ہوتا ہے” لیکن جب لوگ دوسروں کی برائیاں اور نقص نکالتے ہیں تو اس میں سے بہت ساری چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو لوگوں میں موجود ہی نہیں ہوتیں یعنی یہاں بات بہتان تک جا پہنچتی ہے۔ یہ لوگ کتنے بڑے گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں لیکن یہ لوگ نہیں سمجھتے۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ان لوگوں کو نہیں سمجھایا جا سکتا۔

اس لیے اگر اپ کی زندگی میں اپ کے ارد گرد ایسے لوگ موجود ہیں تو اپ ان کی باتوں پر اپنی دل آزاری مت ہونے دیں۔
ہاں! اپ یہ ضرور سیکھیں کہ اپ نے ان کو ڈیل کیسے کرنا ہے اور ان سے فاصلہ کیسے بنا کر رکھنا ہے اور اگر کوئی اپ سے شکایت کرتا ہے کہ اپ کسی کی برائی ہے یا نقص نکالتے ہیں تو جتنا جلدی ہو سکے اپنے اندر سے اپنی اس عادت کو ختم کر لیں ورنہ اگے چل کر اپ کو بہت ساری مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

ماہر نفسیات معین اسلم

15 Responses

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *